کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر

کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں
کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں
نیاز و ناز کے جھگڑے مٹائے جاتے ہیں
ہم ان میں اور وہ ہم میں سمائے جاتے ہیں
کسی بھی وقت بدل سکتا ہے لمحہ کوئی
اس قدر خوش بھی نہ ہو میری پریشانی پر
تیری روح میں سناٹا ہے اور مری آواز میں چپ
تو اپنے انداز میں چپ ہے میں اپنے انداز میں چپ
ایک شخص دیکھا ہے میں نے آئینے میں
خفا دنیا سے ہے کلام خود سے بھی نہیں کرتا
انا كے قید خانے کا میں وہ باغی سا مجرم ہوں
جسے پھانسی چڑھا ڈالا محبت كے وکیلوں نے
خودی کو میری ردی کی ٹوکری بنا دیا
بچا جو تیرا وقت تو اس میں گرا دیا