آج تو بے سبب اداس ہے جی

آج تو بے سبب اداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی
دل پہ آئے ہوئے الزام سے پہچانتے ہیں
لوگ اب مجھ کو ترے نام سے پہچانتے ہیں
دِل سے خیالِ دوست بھلایا نہ جائے گا
سینے میں داغ ہے كہ مٹایا نہ جائے گا
گھر سے یہ سوچ کہ نکلا ہوں کہ مر جانا ہے
اب کوئی راہ دکھا دے کہ کدھر جانا ہے
الفاظ کہاں انسان برے ہوتے ہیں
لفظوں سے تو بس جذبات جڑے ہوتے ہیں
سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے
میں تو محبت کی ‘م’ سے بھی دور بھاگنے والا شخص تھا
اور وہ تھا کہ محبت کی ‘ت’ تک تعاون چاہتا تھا
محبت میں اور کتنی ذلت دکھانا چاہتے ہو
گھر سے تو نکلوا دیا اب کیا وطن چھڑوانا چاہتے ہو