آج پھر ماں مجھے مارے گی بہت رونے پر

آج پھر ماں مجھے مارے گی بہت رونے پر
آج پھر گاؤں میں آیا ہے کھلونے والا
آج پھر ماں مجھے مارے گی بہت رونے پر
آج پھر گاؤں میں آیا ہے کھلونے والا
بچپن کی وہ امیری نہ جانے کہاں چلی گئی
جب پانی میں ہمارے بھی جہاز چلا کرتے تھے
رہنے دو اب کے تم بھی مجھے پڑھ نہ سکو گے
برسات میں کاغذ کی طرح بھیگ گیا ہوں میں
اس گلی سے کبھی مجھے ماں نے گزارا نہ تھا
لگتا تھا جیسے بازار یہ کھلونوں کا تھا
آدھے تو ہیں دشمن تیرے، اور آدھے میرے رقیب ہیں
کچھ حوصلہ دے وقت مجھے کہ سمجھنے کو یہ قصہ عجیب ہے
ان میں لہو جلا ہو ہمارا کہ جان و دل
محفل میں کچھ چراغ فروزاں ہوئے تو ہیں
پیٹھ پیچھے برائی کرتے ہیں
سامنے بھائی بھائی کرتے ہیں