غم پہچان بھی کسی حد تک ہونی چاہیے

غم پہچان بھی کسی حد تک ہونی چاہیے
خوشی کی پہچان بھی تو یہاں ہونی چاہیے
غم پہچان بھی کسی حد تک ہونی چاہیے
خوشی کی پہچان بھی تو یہاں ہونی چاہیے
آہستہ چل اے زندگی کئی قرض چکانا باقی ہے
کچھ درد مٹانا باقی ہے کچھ فرض نبھانا باقی ہے
اب اپنی حقیقت بھی ساغرؔ بے ربط کہانی لگتی ہے
دنیا کی حقیقت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
دنیا نے فسانوں کو بخشی افسردہ حقائق کی تلخی
اور ہم نے حقائق کے نقشے میں رنگ بھرا افسانوں کا
وہ مجھ کو اؐواز تو دیتے ہیں، پکارا نہیں کرتے
کہتے تو سب ہی کچھ ہیں، پر کچھ کہا نہیں کرتے