سبھی کچھ ہو چکا ان کا ہمارا کیا رہا حسرتؔ

سبھی کچھ ہو چکا ان کا ہمارا کیا رہا حسرتؔ
نہ دیں اپنا نہ دل اپنا نہ جاں اپنی نہ تن اپنا
سبھی کچھ ہو چکا ان کا ہمارا کیا رہا حسرتؔ
نہ دیں اپنا نہ دل اپنا نہ جاں اپنی نہ تن اپنا
جب ملو کسی سے تو ذرا دور کی یاری رکھنا
جان لیوا ہوتے ہیں اکثر سینے سے لگانے والے
تو سامنے ہے تو پھر کیوں یقیں نہیں آتا
یہ بار بار جو آنکھوں کو مل کے دیکھتے ہیں
ہمارے ارمانوں سے سجاؤ، شاہ وقت اور محل بناؤ
اپنا تو فٹ پاتھ ٹھکانہ، دیکھ کے ہم کو مت شرماؤ
یہ رم جھم،یہ بارش، یہ آوارگی کا موسم
ہمارے بس میں ہوتا تیرے پاس چلے آتے
چھالے تھے جنہیں دیکھ کے کہنے لگا بچہ
بابا میری ہاتھوں میں ستارے تو نہیں ہیں