ندیم میں کبھی اظہار مدعا نہ کروں گا

ندیم میں کبھی اظہار مدعا نہ کروں گا
مگر وہ بہر خدا یہ غزل تو سنتے جائیں
ندیم میں کبھی اظہار مدعا نہ کروں گا
مگر وہ بہر خدا یہ غزل تو سنتے جائیں
الفاظ گرا دیتے ہیں جذبات کی قیبت
ہر بات کو الفاط میں تولا نہیں کرتے
جواب دیتا ہوں میں بھی کمال آنكھوں سے
وہ لے كے آتے ہیں جب بھی سوال آنكھوں میں
زندگی سے ہَم کچھ اُدھار نہیں لیتے فراز
کفن بھی لیتے ہیں تو زندگی دے کر
میں زمانے میں فقط اِس لیے بدنام ہوں
مجھے دنیا کی طرح بدل جانا نہیں آتا
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
كہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
حسن كردار سے نور مجسم ہو جا
کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلماں ہو جائے
میرا کارنامہ زندگی میری حسرتوں كے سوا کچھ نہیں
یہ کیا نہیں ، وہ ہوا نہیں ، یہ ملا نہیں ، وہ رہا نہیں