پاس جب تک وہ رہے درد تھما رہتا ہے
پاس جب تک وہ رہے درد تھما رہتا ہے
پھیلتا جاتا ہے پِھر آنکھ كے کاجل کی طرح
پاس جب تک وہ رہے درد تھما رہتا ہے
پھیلتا جاتا ہے پِھر آنکھ كے کاجل کی طرح
الجھا رہی ہے مجھ کو یہی کشمکش مسلسل محسن
وہ آ بسا ہے مجھ میں یا میں اس میں کھو گیا ہوں
احساس محبت کی مٹھاس سے مجھے آگاہ نہ کر
یہ وہ زہر ہے جو میں پہلے بھی پی چکا ہوں
سنا ہے زندگی امتحاں لیتی ہے فراز
پر یہاں تو امتحانوں نے زندگی لے لی
بڑا مزہ ہو کہہ محشر میں ہم کریں شکوہ
وہ منتوں سے کہیں چُپ رہو خدا كے لیے
اپنی گلی میں اپنا ہی گھر ڈھونڈتے ہیں لوگ
امجد یہ کون شہر کا نقشہ بدل گیا
محبت کر سکتے ہو تو خدا سے کرو فراز
مٹی كے کھلونوں سے کبھی وفا نہیں ملتی
تمام عمر اسی كے خیال میں گزری فراز
میرا خیال جسے عمر بھر نہیں آیا