وہ جن کو دیکھ کر آنکھوں میں رونق آ جائے

وہ جن کو دیکھ کر آنکھوں میں رونق آ جائے
وہی کچھ لوگ زندگی ویران کر جاتے ہیں
وہ جن کو دیکھ کر آنکھوں میں رونق آ جائے
وہی کچھ لوگ زندگی ویران کر جاتے ہیں
اک غزل میر کی پڑھتا ہے پڑوسی میرا
اک نمی سی میری دیوار میں آ جاتی ہے
تیری یاد آئے تو نیند جاتی رہتی ہے
خواب ٹوٹ جاتے ہیں اب بھی تیری آہٹ پر
وہ جو تیری عبادتوں میں بھی حائل رہا
وہ صرف میرے سچے عشق کا معجزہ تھا
خود اپنے آپ سے ڈرتا ہوں
محبت ایک دہشت ہو گئی ہے
سچ کہوں اب تم سے نفرت سی ہونی لگی ہے
کیوں کے اتنا بے وفا کوئے بھی ہو اچھا نہیں لگتا
مجھے یقین ہے وہ اپنی جنگ روک دے گا
زلفیں کھول کر اپنی تو سامنے آ جائے اگر
کوئے عظیم سلطنت اگر کئی بار تباہ و برباد ہوجائے
جس سے پِھر آباد ہو جائے ایسا خزانہ ہیں تیری آنکھیں