اے کاش کبھی وہ وقت آئے
میں دور کہیں کھو جاؤں
وہ ڈھونڈے مجھ کو نگر نگر
میں پھر نہ کبھی اسے مل پاؤں
وہ ڈھونڈے مجھ کو پانی میں
میں بارش بن کر بہہ جاؤں
وہ بیچ سمندر ڈھونڈے پھر
میں لہروں میں ہی کھو جاؤں
وہ ڈھونڈے دور پہاڑوں میں
میں پتھر کا بت بن جاؤں
اے کاش کبھی وہ وقت آئے
میں دور کہیں ہوں کھو جاؤں
وہ ڈھونڈے کوہستانوں میں
میں برف کی طرح جم جاؤں
وہ ڈھونڈے ننگے پاؤں مجھے
پس دور کہیں ویرانوں میں
میں اسکے پاؤں کی دھول بنوں
پر نہ مل سکوں مستانے کو
وہ تھک کے خالی آنکھوں سے
یوں دیکھے جب آسمانوں کو
میں دور کہیں ان تاروں میں
پس اس کو دیکھ کہ مسکاؤں
میری چاہت پہ جو ہنستا تھا
پس بیٹھا ہو گا بیگانہ یوں
اے کاش کبھی وہ وقت آئے
میں دور کہیں کھو جاؤں