تسلسل تھا بے خودی کا یا صبح کا غبار تھا
آنكھوں میں اسکی رات کا باقی خمار تھا
مجھ کو پلا كے وہ بڑا مسرور تھا ہوا
میں نے بھی جام لے لیا مجھے اعتبار تھا
مل کے بھی دوستوں سے بھولا نہ وہ مجھے
چہرے پہ تھی چماک وہ مگر بے قرار تھا
وہ چھوڑ کر بلندیوں کو پستی میں چل پڑا
میں اُس کا ہاتھ چھوڑ دیتا مجھے اختیار تھا
اپنی وفا کا اظہار اس نے مجھ سے یوں کیا
روکسات ہوا تو تب بھی وہ میرا طلب گار تھا