حسرتیں چھوڑ آیا ہوں، وہ رشتے چھوڑ آیا ہوں
حسرتیں چھوڑ آیا ہوں، وہ رشتے چھوڑ آیا ہوں
اب خود سے آگے کوئی بھی حسرت نہیں مجھ کو
حسرتیں چھوڑ آیا ہوں، وہ رشتے چھوڑ آیا ہوں
اب خود سے آگے کوئی بھی حسرت نہیں مجھ کو
میری زیست کو نکھارنے کا تو ساماں بن جا
میری آنکھوں سے اتر جا، نمِ مژگاں بن جا
یہ تو کہو کبھی عشق کیا ہے، جگ میں ہوئے ہو رُسوا کبھی
اس کے سوا ہم کچھ بھی نہ پُوچھیں، باقی بات فضُول میاں
قاتل بھی یار تھے میرے مقتول بھی عزیز
واصف میں اپنے آپ میں نادم بڑا ہوا