ہم جان فدا کرتے ، گر وعدہ وفا ہوتا
ہم جان فدا کرتے ، گر وعدہ وفا ہوتا
مرنا ہی مقدر تھا ، وہ آتے تو کیا ہوتا
ہم جان فدا کرتے ، گر وعدہ وفا ہوتا
مرنا ہی مقدر تھا ، وہ آتے تو کیا ہوتا
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی
در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا
خدا کو کام تو سونپے ہیں میں نے سب لیکن
رہے ہے خوف مجھے واں کی بے نیازی کا
قدرت نے یزید کی حسرت خاک میں ملا ڈالی
شمر کے وار سے حسیں کو امرت پلا ڈالی
یہ زندگی بھی عجب رنگ دکھا دیتی ہے
کبھی فلک تو کبھی زمیں پر گرا دیتی ہے
وہ رستے، ان سے الفت، وہ در چھوڑ دیتے ہیں
کہ خرد راس ان کی یہ چاہت نہیں مجھ کو