کوئی یہ کیسے بتائے کہ وہ تنہا کیوں ہے

kaifi azmi ghazals

کوئی یہ کیسے بتائے کہ وہ تنہا کیوں ہے
وہ جو اپنا تھا وہی اور کسی کا کیوں ہے
یہی دنیا ہے تو پھر ایسی یہ دنیا کیوں ہے
یہی ہوتا ہے تو آخر یہی ہوتا کیوں ہے
اک ذرا ہاتھ بڑھا دیں تو پکڑ لیں دامن
ان کے سینے میں سما جائے ہماری دھڑکن
اتنی قربت ہے تو پھر فاصلہ اتنا کیوں ہے
دل برباد سے نکلا نہیں اب تک کوئی
اس لٹے گھر پہ دیا کرتا ہے دستک کوئی
آس جو ٹوٹ گئی پھر سے بندھاتا کیوں ہے
تم مسرت کا کہو یا اسے غم کا رشتہ
کہتے ہیں پیار کا رشتہ ہے جنم کا رشتہ
ہے جنم کا جو یہ رشتہ تو بدلتا کیوں ہے

آج تھی ضرورت کسی یار کی

kisi yaar ki

آج تھی ضرورت کسی یار کی
کسی اپنے کسی غم خار کی

کس تڑپ میں بہے آنسو
کمی تھی شاید پیار کی

ڈھونڈا حل اُنکی مشکلات کا
شیخ ہوتے تو بات تھی اختیار کی

بھول کر موت، مانگی خیر اُنکی
ہفتہ وار کی عبادت پروردگار کی

نعمانؔ مانگتا اپنے لیے تو مل جاتا
مگر ازمائش تھی دلِ بےقرار کی

ذرا سی چوٹ لگے، تو وہ آنسو بہا دیتی ہے

mothery poetry maan

ذرا سی چوٹ لگے، تو وہ آنسو بہا دیتی ہے
اپنی سکون بھری گود میں سلا دیتی ہے

کرتے ہیں خفا ہم جب تو چٹکی میں بھلا دیتی ہے
ہو تے ہیں خفا ہم جب، تو دنیا کو بھلا دیتی ہے

مت گستاخی کرنا لوگو! اس ماں سے کیونکہ
جب وہ چھوڑ کے جاتی ہے تو کبھی لوٹ کے نہیں آتی