درد منت کش دوا نہ ہوا

درد منت کش دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا
ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں مزید پڑھیں "درد منت کش دوا نہ ہوا”
مرزا غالب کی مشہور اردو غزلیں پڑھیے
درد منت کش دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا
ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں مزید پڑھیں "درد منت کش دوا نہ ہوا”
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی
در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
آج ہم اپنی پریشانی خاطر ان سے
کہنے جاتے تو ہیں پر دیکھیے کیا کہتے ہیں
گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
جانے گا اب بھی تو نہ مرا گھر کہے بغیر
کہتے ہیں جب رہی نہ مجھے طاقت سخن
جانوں کسی کے دل کی میں کیونکر کہے بغیر
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا