جو گزاری نہ جا سکے ہَم سے

جو گزاری نہ جا سکے ہَم سے
ہَم نے وہ زندگی گزاری ہے
بس جاتے ہیں دِل میں اِجازَت لیے بغیر
وہ لوگ جنہیں ہَم زندگی بھر پا نہیں سکتے
دیمک زدہ کتاب تھی یادوں کی زندگی
ہر ورق کھولنے کی خواہش میں پھٹ گیا
دو دن کی زندگی ہے کیا کرو گے الجھ کر
رہو تو پھول کی مانند بکھرو تو خوشبو بن کر
میری بے بسی ، میری التجا میری ضبط آہ پہ نظر تو کر
مجھے مسکرا کے نا ٹال دے میری زندگی کا سوال ہے
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
مقصد زیست غم عشق ہے صحرا ہو کہ شہر
بیٹھ جائیں گے جہاں چاہو بٹھا دو ہم کو