وہ آنسوؤں کی زُبان جانتا نہ تھا واصف

وہ آنسوؤں کی زُبان جانتا نہ تھا واصف
مجھے بیان کا نہ تھا حوصلہ ، میں کیا کرتا
وہ آنسوؤں کی زُبان جانتا نہ تھا واصف
مجھے بیان کا نہ تھا حوصلہ ، میں کیا کرتا
اپنے شاداب حسیں چہرے پہ مغرور نہ ہو
زرد چہروں پہ جو لکھے ہیں سوالات سمجھ
میں آرزوئے دید کے کِس مرحلے میں ہوں
خود آئینہ ہوں یا میں کسی آئینے میں ہوں
ڈر ہے کہ مجھے آپ بھی گمراہ کریں گے
آتے ہیں نظر آپ بھی کچھ راہنما سے
زندگی سنگِ درِ یار سے آگے نہ بڑھی
عاشقی مطلعِ دیدار سے آگے نہ بڑھی
تیرگی کیسوئے خمدار سے آگے نہ بڑھی
روشنی تابشِ رُخسار سے آگے نہ بڑھی
جس آنکھ نے دیکھا تجھے اس آنکھ کو دیکھوں
ہے اس کے سوا کیا ترے دیدار کی صورت
ورق ورق میری نظروں میں کائنات کا ہے
کہ دستِ غیب سے لکھی ہوئی کتاب ہوں میں