عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا

عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
وہ مجھ سے بچھڑ کر اب تک رویا نہیں غالب
کوئی تو ہے ہمدرد جو اسے رونے نہیں دیتا
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
نہ بزم اپنی ، نہ ساقی اپنا ، نہ شیشہ اپنا ، نہ جام اپنا
اگر یہی ہے نظام ہستی تو غالب زندگی کو سلام اپنا
مجھ سے مت کہہ تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی
زندگی سے بھی میرا جی ان دنوں بیزار ہے
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے