گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
آنکھوں تک آ سکی نہ کبھی آنسوؤں کی لہر
یہ قافلہ بھی نقل مکانی میں کھو گیا
میں جس سکون سے بیٹھا ہوں اس کنارے پر
سکوں سے لگتا ہے میرا قیام آخری ہے
یک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابشؔ
میں نے اک بار کہاتھا مجھے ڈر لگتاہے