بولے تو سہی جھوٹ ہی بولے وہ بلا سے

بولے تو سہی جھوٹ ہی بولے وہ بلا سے
ظالم کا لب و لہجہ دِل آویز بہت ہے
بولے تو سہی جھوٹ ہی بولے وہ بلا سے
ظالم کا لب و لہجہ دِل آویز بہت ہے
اے شوق نظارہ کیا کہئے نظروں میں کوئی صورت ہی نہیں
اے ذوق تصور کیا کیجے ہم صورت جاناں بھول گئے
روشنی ہوتی نہیں اور دھواں اٹھتا ہے
یہ چراغوں کا بدن ایسے جلایا کس نے ؟
بادلوں كے شہر کی ہر اک گلی کو ہے خبر
دھوپ کی گوری ہتھیلی چوم کر آیا ہوں میں
محسن میں بات بات پہ کہتا تھا جس کو جان
وہ شخص آج مجھ کو بے جان کر گیا
اسے یہ کون بتلائے اسے یہ کون سمجھائے
بہت خاموش رہنے سے تعلق ٹوٹ جاتے ہیں
کبھی کبھار اسے دیکھ لیں کہیں مل لیں
یہ کب کہا تھا کہ وہ خوش بدن ہمارا ہو
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے