یوں میرے ساتھ دفن دل بے قرار ہو

یوں میرے ساتھ دفن دل بے قرار ہو
چھوٹا سا اک مزار کے اندر مزار ہو
یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو
تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ
یہ صبح کی سفیدیاں یہ دوپہر کی زردیاں
اب آئینے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا
اُداسی ، شام ، تنہائی ، کسک اور یادوں کے بے چینی
مجھے سب سونپ کر سورج اُتَر جاتا ہے پانی میں
شام فراق اب نہ پوچھ آئی اور آ کے ٹل گئی
دل تھا کہ پھر بہل گیا جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی
کچھ نہیں چاہئے تجھ سے اے مری عمر رواں
مرا بچپن مرے جگنو مری گڑیا لا دے
یوں بچھڑنا بھی بہت آساں نہ تھا اس سے مگر
جاتے جاتے اس کا وہ مڑ کر دوبارہ دیکھنا