بس پنچھی اڑنے کے قابل ہو جائیں

بس پنچھی اڑنے کے قابل ہو جائیں
مانگی ہے اتنی سی مہلت پیڑوں نے
خواہشیں ہیں گھر سے باہر دور جانے کی بہت
شوق لیکن دل میں واپس لوٹ کر آنے کا تھا
اس نا خدا کے ظلم و ستم ہائے کیا کروں
کشتی مری ڈبوئی ہے ساحل کے آس پاس
آنکھوں کا تھا قصور نہ دل کا قصور تھا
آیا جو میرے سامنے میرا غرور تھا
آواز میں ٹھہراؤ تھا آنکھوں میں نمی تھی
اور کہہ رہا تھا میں نے سب کچھ بھلا دیا
نہیں نہیں یہ خبر دشمنوں نے دی ہوگی
وہ آئے آ کے چلے بھی گئے ملے بھی نہیں