میں اپنی ذات میں نیلام ہو رہا ہوں قتیل

میں اپنی ذات میں نیلام ہو رہا ہوں قتیل
غم حیات سے کہہ دو خرید لائے مجھے
میں اپنی ذات میں نیلام ہو رہا ہوں قتیل
غم حیات سے کہہ دو خرید لائے مجھے
اپنے ہونٹوں پر سجانا چاہتا ہوں
آ تجھے ميں گنگنانا چاہتا ہوں
کوئي آنسو تيرے دامن پر گرا کر
بُوند کو موتي بنانا چاہتا ہوں
حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں
ان کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں
وہ دِل ہی کیا جو تیرے ملنے کی دعا نہ کرے
میں تجھ کو بھول کر زندہ رہوں خدا نہ کرے
رہے گا ساتھ تیرا پیار زندگی بن كے
یہ اور بات میری زندگی وفا نہ کرے
یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں
خدا کسی سے کسی کو مگر جدا نہ کرے
کیا جانے کس ادا سے لیا تو نے میرا نام
دنیا سمجھ رہی ہے کہ سچ مچ ترا ہوں میں
مجھ سے تو پوچھنے آیا ہے وفا کے معنی
یہ تری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو
یوں لگے دوست ترا مجھ سے خفا ہو جانا
جس طرح پھول سے خوشبو کا جدا ہو جانا