ماں کی ایک دعا زندگی دے گی

ماں کی ایک دعا زندگی دے گی
خود روئے گی تمہیں ہنسا دے گی
کبھی بھول کی بھی ماں کو نہ رلانا
اک چھوٹی سی غلطی پورا عرش ہلا دے گی
ماں کی ایک دعا زندگی دے گی
خود روئے گی تمہیں ہنسا دے گی
کبھی بھول کی بھی ماں کو نہ رلانا
اک چھوٹی سی غلطی پورا عرش ہلا دے گی
ذرا سی چوٹ لگے، تو وہ آنسو بہا دیتی ہے
اپنی سکون بھری گود میں سلا دیتی ہے
کرتے ہیں خفا ہم جب تو چٹکی میں بھلا دیتی ہے
ہو تے ہیں خفا ہم جب، تو دنیا کو بھلا دیتی ہے
مت گستاخی کرنا لوگو! اس ماں سے کیونکہ
جب وہ چھوڑ کے جاتی ہے تو کبھی لوٹ کے نہیں آتی
میں چھوٹی سی اک بچی تھی
تیری انگلی تھام کے چلتی تھی
تو دور نظر سے ہوتی تھی
میں آنسوں آنسو روتی تھی
خوابوں کا اک روشن بستا
تو روز مجھے پہناتی تھی
جب ڈرتی تھی میں رات کو
تو اپنے ساتھ سلاتی تھی
چند بچوں کو پالا تھا ایک ماں نے جتن سے
ممتا کا صلہ پھر بھی ضعیفی میں نہ پائی
ہر چیز تو تقسیم ہوئی باپ کے مرتے
اک ماں تھے جو حصے میں کسی کے نہ آئئ
ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اُٹھا رہا ہوں
ہے کون سی کمی جو مجھ کو ستا رہی ہے
ہے کون سا وہ غم جو جی کو جلا رہا ہے
ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اُٹھا رہا ہوں
ٹوٹا ہے دل یہ میرا نم ہیں مری نگاہیں
ہے کون سا وہ دکھ جو دل کو دکھا رہا ہے
میں نا تو بتا را ہوں نا ہی چھپا رہا ہوں
ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اُٹھا رہا ہوں
ڈوبا ہوا ہوں کیوں میں ازل سے اندھیروں میں ماں
ہے کون سا یہ شکوہ جو لب سے بتا را ہوں
ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اُٹھا رہا ہوں
رہتا ہوں غم کے گھر میں کس کی عنایتیں ہیں
ہے کس کی زہ نوازی دھوکہ جو یہ کھا را ہوں
ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اُٹھا رہا ہوں
کس نے دیا ہے مجھ کو رسوایوں کا خزانہ
یہ کس کہ ظلم وستم کو میں نبھا رہا ہوں
ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اُٹھا رہا ہوں
ماں تیرا غم لیے دل میں جیئے جا رہا ہوں
ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اُٹھا رہا ہوں
مجھ کو تیری دعا چاہیے
تیرے آنچل کی ٹھنڈی ہوا چاہیے
لوری گا گا کے مجھ کو سلاتی ہے تو
مسکرا کر سویرے جگاتی تو
غریب ماں اپنے بچوں کو پیار سے یوں مناتی ہے
پھر بنا لیں گے نئے کپڑے یہ عید تو ہر سال آتی ہے
پوچھتا ہے جب کوئی کہ دنیا میں محبت ہے کہاں؟
مسکرا دیتا ہوں میں اور یاد آ جاتی ہے ماں