اک عمر کٹ گئی لیکن بچپنا نہیں جاتا

اک عمر کٹ گئی لیکن بچپنا نہیں جاتا
ہم دیے جلاتے ہیں آج بھی تیری آہٹ پر
اک عمر کٹ گئی لیکن بچپنا نہیں جاتا
ہم دیے جلاتے ہیں آج بھی تیری آہٹ پر
چل رہے ہیں زمانے میں رشوتوں كے سلسلے
تم بھی کچھ لے دے کے مجھ سے محبت کر لو
مصروفیت میں آتی ہے بے حد تمہاری یاد
فرصت میں تیری یاد سے فرصت نہیں ملتی
جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو
اے جان جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو
ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہے کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں
یوں بھی ہزاروں لاکھوں میں تم انتخاب ہو
پورا کرو سوال تو پھر لا جواب ہو
ہم کیا کریں اگر نہ تری آرزو کریں
دنیا میں اور بھی کوئی تیرے سوا ہے کیا