اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں كے یہ کتبے بھی پڑھا کر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی كے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں كے یہ کتبے بھی پڑھا کر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی كے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
ہوا جب غم سے یوں بے حس تو غم کیا سر کے کٹنے کا
نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا
ہوئی مدت کہ غالبؔ مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
سجدے تو سب نے کیے تیرا نیا انداز ہے
تو نے وہ سجدہ کیا جس پر خدا کو ناز ہے
وچ داڑھی اسلام نہ کوئی
بن عملاں قرآن نہ کوئی
جی مکراں تو باز نہ آوے
ملاں جیہا بے ایمان نہ کوئی
جی گر پا دیوے پٹھی راہے
مرشد جیہا شیطان نہ کوئی
ثانی بس اک اودھی من لے
رب توں گاں سلطان نہ کوئی
پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویا
کدی اپنے آپ نوں پڑھیا نئی
جا جا واڑدہ مسجداں مندراں اندر
کدی من اپنے وچ وڑیا ای نئی
مزید پڑھیں […]
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہیے
كے دانہ خاک میں مل کر گل گلزار بنتا ہے
مقدر جن كے اونچے اور اعلی بخت ہوتے ہیں
زندگی میں انہی كے امتحان بھی سخت ہوتے ہیں