وفا شعار کئی ہیں کوئی حسیں بھی تو ہو

وفا شعار کئی ہیں کوئی حسیں بھی تو ہو
چلو پھر آج اسی بے وفا کی بات کریں
وفا شعار کئی ہیں کوئی حسیں بھی تو ہو
چلو پھر آج اسی بے وفا کی بات کریں
مجھ سے تو پوچھنے آیا ہے وفا کے معنی
یہ تری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو
کون پریشان ہوتا ہے تیرے غم سے فراز
وہ اپنی ہی کسی بات پہ رویا ہو گا
آج بھی اس کی آنكھوں میں راز وہی تھا
چہرہ وہی تھا چہرہ کا لباس وہی تھا
کیسے اس کو بے وفا کہہ دوں یارو
آج بھی اس كے دیکھنے کا انداز وہی تھا
تیرے حسن پر تعریف بھری کتاب لکھ دیتا
کاش كے تیری وفا تیرے حسن کے برابر ہوتی
مجھے غرور رہتا ہے تیری آشنائی کا
مگر ساتھ غم بھی ہے تیری جدائی کا
بھیڑ میں اکیلے پن کا احساس ہوتا ہے
تیرے بن یہ حال ہے میری تنہائی کا