موت اسکی اچھی جس پر زمانہ کرے افسوس
موت اسکی اچھی جس پر زمانہ کرے افسوس
ورنہ یوں تو سبھی آتے ہیں مرنے کے لیے
موت اسکی اچھی جس پر زمانہ کرے افسوس
ورنہ یوں تو سبھی آتے ہیں مرنے کے لیے
ہم بھی چاہتے تھے غالب کی طرح شاعر بن جانا
مگر ہماری قلم تو اور کچھ لکھتی ہی نہیں تیرے نام کے سوا
لکھنا میرے مزار کے قطبے پہ یہ حروف
مرحوم زندگی کی حراست میں مر گیا
اب کوئی مجھ کو دلائے نہ محبت کا یقین
جو مجھ کو بھول نہ سکتا تھا وہی بھول گیا
آیا نہیں تھا کبھی میری آنکھ سے اک اشک بھی
محبت کیا ہوئی اشکوں کا سیلاب آ گیا
آتی ہے یاد اکثر روتے ہیں بےبسی میں
اک بے وفا کو ہم نے چاہا تھا زندگی میں
کاش تمہیں بچپن سے ہی مانگ لیتا خدا سے
ہر چیز تو مل جاتی تھی دو آنسوں بہانے سے