غم كے صحرا سے جب گزر آیا

غم كے صحرا سے جب گزر آیا
شعر کہنے کا پِھر ہنر آیا
دریا کے کنارے پہ مری لاش پڑی تھی
اور پانی کی تہہ میں وہ مجھے ڈھونڈ رہا تھا
سایہ بھی تیرا تجھ کو کہیں چھوڑ جائے گا
آئی بھی تیرے کام تو تنہائی آئے گے
آندھیاں آتی تھیں لیکن کبھی ایسا نہ ہوا
خوف کے مارے جدا شاخ سے پتا نہ ہوا
اب سوچتے ہیں لائیں گے تجھ سا کہاں سے ہم
اٹھنے کو اٹھ تو آئے ترے آستاں سے ہم
کہتے کہتے کچھ بدل دیتا ہے کیوں باتوں کا رخ
کیوں خود اپنے آپ کے بھی ساتھ وہ سچا نہیں