وہ تھے نہ مجھ سے دور نہ میں ان سے دور تھا

وہ تھے نہ مجھ سے دور نہ میں ان سے دور تھا
آتا نہ تھا نظر تو نظر کا قصور تھا
وہ تھے نہ مجھ سے دور نہ میں ان سے دور تھا
آتا نہ تھا نظر تو نظر کا قصور تھا
شباب رفتہ کے قدم کی چاپ سن رہا ہوں میں
ندیم عہد شوق کی سنائے جا کہانیاں
بگڑوں جو کسی بات پہ، سنبھلتا نہیں ہوں میں
جو ٹھان لوں اک بار تو، بدلتا نہیں ہوں میں
ہمیں معلوم ہے ہم سے سنو محشر میں کیا ہوگا
سب اس کو دیکھتے ہوں گے وہ ہم کو دیکھتا ہوگا