یہ اہتمام چراغاں بجا سہی لیکن

یہ اہتمام چراغاں بجا سہی لیکن
سحر تو ہو نہیں سکتی دیئے جلانے سے
تم آئے ہو تمہیں بھی آزما کر دیکھ لیتا ہوں
تمہارے ساتھ بھی کچھ دور جا کر دیکھ لیتا ہوں
مجھے پسند نہیں ایسے کاروبار میں ہوں
یہ جبر ہے کہ میں خود اپنے اختیار میں ہوں
کر كے دوستی بن گئے وہ دشمن عامر
ایسے نبھائی كے کسی نے نبھائی نہ ہو گی
ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی
سوکھے پتوں کی طرح بکھرے ہیں ہَم تو
کسی نے سمیٹا بھی تو صرف جلانے كے لیے