یہ کون آنے جانے لگا اس گلی میں اب

یہ کون آنے جانے لگا اس گلی میں اب
یہ کون میری داستاں دہرانے والا ہے
یہ کون آنے جانے لگا اس گلی میں اب
یہ کون میری داستاں دہرانے والا ہے
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
کسی کے جانے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا
لفظ خدا حافظ سے میرے پرانےمراسم ہیں
آج میری کائی ایک گھڑی سے محروم ہے
ورنہ میں تو ایک شخص کا وقت خریدتا رہا ہوں
ایسی تاریکیاں آنکھوں میں بسی ہیں کہ فرازؔ
رات تو رات ہے ہم دن کو جلاتے ہیں چراغ
نبیل ضرورت اس قدر آن پڑی
کہ ضروری ہم بھی ہو گئے
روح قبضی میں بڑی اذیت سے گزرا تھا
تمہاری ذات جو اٹکی تھی میری اکھڑی ہوئی سانسوں کےساتھ