وہ جو کہتا تھا کچھ اعتبار کرو

وہ جو کہتا تھا کچھ اعتبار کرو عامر
میرا محسن بن کے مجھے لوٹا اس نے
یاد رکھنا ہی محبت میں نہیں سب کچھ
بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے
مجھے پھولوں پر بھی نیند نہ آئے گی
میرا مرکز میرا محور تیری آغوش ہے آج
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
تجھے تو راج کروایا چاہے میرا گھر بار نہیں بنا
میں تیرے لیے در ہی بنا کبھی دیوار نہیں بنا
وہ جو حال زماں دیکھ کر چیختی تھی روتی تھی
٘میں نے خود وہ گونجتی آواز ہے سلا ڈالی
بہت چپ چاپ جینا بھی
بڑا پر سوز ہوتا ہے