ٹوٹ سا گیا ہے میری چاہتوں کا وجود

ٹوٹ سا گیا ہے میری چاہتوں کا وجود
اب کوئی اچھا لگے تو اظہار نہیں کرتے
ٹوٹ سا گیا ہے میری چاہتوں کا وجود
اب کوئی اچھا لگے تو اظہار نہیں کرتے
دونوں ہی جانتے ہیں اور دونوں کو پتہ ہے لیکن
ایک کہنے سے گریزاں اور ایک کو اظہار سے ڈر لگتا ہے
لوگ دیتے رہے کیا کیا نہ دلاسے مجھ کو
زخم گہرا ہی سہی زخم ہے بھر جائے گا
میں نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہد وفا یاد نہیں
میرے ہم سخن کا یہ حکم تھا كے كلام اس سے میں کم کروں
میرے ہونٹ ایسے سلے كے پِھر میری چُپ نے اس کو رلا دیا