مانتا ہوں تمہیں کچھ اور بھی لوگ چاہتے ہیں

مانتا ہوں تمہیں کچھ اور بھی لوگ چاہتے ہیں
سن ! جو ہر کسی کو مل جائے بہت عام سی چیز ہوتی ہے
مانتا ہوں تمہیں کچھ اور بھی لوگ چاہتے ہیں
سن ! جو ہر کسی کو مل جائے بہت عام سی چیز ہوتی ہے
دِل اس کو دیا ہے تو وہی اس میں رہے گا
ہَم لوگ امانت میں خیانت نہیں کرتے
تیری آنکھوں نے ایسا ورد پھونکا تھا مجھ پر
سزائیں بھول گیا ہوں میں سب قیامت کی
بنا کے سلگتے ہوئے صحرا میں اک ریت کا گھر
پِھر یوں ہوا وہ شخص ہواؤں کو اس کا پتہ دے گیا
شکوہ نہیں ہے تیری رقیبوں سے دوستی کا
پر مارا ہنستا بستا ہوا گھر ویران ہو گیا
جدا ہو کر بھی دونوں جی رہے ہیں ایک مدت سے
کبھی دونوں ہی کہتے تھے كے ایسا ہو نہیں سکتا
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت ذرخیز ہے ساقی