وقت قضا

نت نئے ارادوں میں اتنا غافل ہوں کہ
وقت قضا بھی قضا ہونے کو ہے
جانے کس راہ سے آ جائے وہ آنے والا
میں نے ہر سمت سے دیوار گرا رکھی ہے
اِس لیے تو بچوں پر نور برستا ہے
شرارتیں تو کرتے ہیں سازشیں نہیں کرتے
یہ تجھ پہ منحصر ہے کس بات پر بگڑ جانا
ورنہ تلخیوں سے بھی آج دل ٹوٹا نہیں کرتی
ہر کوئی میر و غالب سا اہل سخن نہیں ہوتا
قدرت نے ہر کسی میں تو شاعرنہیں رکھا
وہ اللہ پہ یقین ہے جو اس کو جدا سا لگتا ہے
ورنہ دریا کو تو ہر شخص موسیٰ سا لگتا ہے