توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ زمانے سے خفا میرے لیے ہے
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ زمانے سے خفا میرے لیے ہے
مٹ جائے گناہوں کا تصور اِس جہاں سے
اگر ہو جائے یقین كے خدا دیکھ رہا ہے
وہ دانائے سُبل، ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں ، وہی فرقاں ، وہی یٰسیں ، وہی طٰہٰ
اندھیروں کو نور دیتا ہے ، ذکر اس کا دِل کو سرور دیتا ہے
اس كے دَر سے جو بھی مانگو ، وہ اللہ ہے ضرور دیتا ہیں
کمرے کا کیلنڈر تو بَدَل جاتا ہے ہر سال
اب كے میرے حالت بَدَل دے میرے مولا
فنا کر اپنی زندگی کو راح جنون میں اے جوان
تب کرے گا عبادت جب گناہ کرنے کی طاقت نہ ہو گی
نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نئیں پایا
ککر تے انگور چڑھایا، ہر گچھا آزمایا