اوروں سے کس بات کا گلا کروں آخر

اوروں سے کس بات کا گلا کروں آخر
کہ میسر خود کی بھی صحبت نہیں مجھ کو
میری زیست کو نکھارنے کا تو ساماں بن جا
میری آنکھوں سے اتر جا، نمِ مژگاں بن جا
یہ تو کہو کبھی عشق کیا ہے، جگ میں ہوئے ہو رُسوا کبھی
اس کے سوا ہم کچھ بھی نہ پُوچھیں، باقی بات فضُول میاں
تو اپنی شیشہ گری کا ہنر نہ کر ضائع
میں آئینہ ہوںمجھے ٹوٹنے کی عادت ہے
ابنِ آدم ہوں، خطا میرے خمیر میں ہے
انساں ہوں، فرشتوں سے تو نسبت نہیں مجھ کو