سوچتے ہیں کہ کسی اور کو مامور کریں

سوچتے ہیں کہ کسی اور کو مامور کریں
تم سے پھولوں کی حفاظت نہیں کی جاتی ہے
سوچتے ہیں کہ کسی اور کو مامور کریں
تم سے پھولوں کی حفاظت نہیں کی جاتی ہے
باہر وبا کا خوف ہے، گھر میں بلا کی بھوک
کس موت سے مروں میں ذرا راۓ دیجیۓ
ہم تو چاھت میں بھی غالبؔ کے مقلّد ہیں فرازؔ
جس پہ مرتے ہیں اُسے مار کے رکھ دیتے ہیں
اس کے دشمن ہیں بہت آدمی اچھا ہوگا
وہ بھی میری ہی طرح شہر میں تنہا ہوگا
جھوٹ کیوں بولیں فروغِ مصلحت کے نام پر
زندگی پیاری سہی لیکن ہمیں مرنا تو ہے