تیرے چرچے ہیں جفا سے تیری
تیرے چرچے ہیں جفا سے تیری
لوگ مر جائیں بلا سے تیری
کوئی نسبت کبھی اے جانِ سخن
کسی محرومِ نوا سے تیری
اے میرے ابرِ گریزان کب تک
راہ تکتے رہیں پیاسے تیری
تیرے مقتل بھی ہمیں سے آباد
ہم بھی زندہ ہیں دعا سے تیری
تو بھی نادم ہے زمانے سے ‘فراز‘
وہ بھی ناخوش ہیں وفا سے تیری